tag:blogger.com,1999:blog-14250525287063564222024-03-19T09:49:58.456+05:30Taemeer.comTaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.comBlogger13125tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-35710599558872798482017-12-18T14:35:00.001+05:302017-12-18T14:35:33.074+05:30انڈیکیٹرز<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgT22lGJ96f0MXP2APj0r1DRDolRsrjhNfXaLXxniKWR8eE1VXhpkFn5Gxsrrl3643loewYWvKpQU-IYvVpIFxEeUe2W9sfVlykLzIPqZALBxFOJnGb_9j-VUF89vgdrvnGa3QDRaFbBIs/s1600/indicators.jpg" imageanchor="1" style="clear: right; float: right; margin-bottom: 1em; margin-left: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgT22lGJ96f0MXP2APj0r1DRDolRsrjhNfXaLXxniKWR8eE1VXhpkFn5Gxsrrl3643loewYWvKpQU-IYvVpIFxEeUe2W9sfVlykLzIPqZALBxFOJnGb_9j-VUF89vgdrvnGa3QDRaFbBIs/s1600/indicators.jpg" alt="indicators" data-original-width="300" data-original-height="164" /></a></div>زندگی کے سفر کو برا نہ کہو یہ سفر بھی اسی طرح کا ہے جو ہم اکثر و بیشتر کر رہے ہوتے ہیں۔ کار، بس، ٹرین یا ہوائی جہاز کا سفر ۔۔ ہر گزرتا لمحہ وقت کی دھند میں گُم ہو رہا ہے اور آنے والے وقت پر نظریں جمی ہیں۔ سفر کو آسان بنانے کے لئے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے اور بہت احتیاط سے ہر قدم اٹھانا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔<br />
<br />
بہت خوبصورت تجزیہ ہے ۔۔۔۔ لائق مطالعہ ۔۔۔<br />
<br />
فیس بک پوسٹ: <a href="https://www.facebook.com/taemeer/posts/286539448113648">18/ستمبر/2012</a><br />
<br />
***<br />
زندگی کے سفر کو بُرا نہ کہو یہ سفر بھی اُسی طرح کاہے جوہم اکثر و بیشتر کر رہے ہوتے ہیں کار، بس، ٹرین یا ہوائی جہاز کاسفر ۔۔ ہر گزرتا لمحہ وقت کی دھند میں گُم ہو رہا ہے اور آنے والے وقت پر نظریں جمی ہیں سفر کو آسان بنانے کے لئے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے اور بہت احتیاط سے ہر قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ <br />
ہم ٹریفک قوانین کی کتنی پابندی کرتے ہیں جبکہ وہ سفر تو بہت چھوٹا سا ہوتا ہے۔ گاڑی آپ خود چلا رہے ہوں تو اور بھی احتیاط کرتے ہیں۔ سامنے والی گاڑی کے انڈیکیٹر پر ہر پل نظر رہتی ہے جہاں توجہ بٹی وہیں سامنے والی گاڑی سے جا ٹکرائے۔ <br />
ضروری ہے کہ راستے کی دشواریوں کا آپ کو بخوبی علم ہو جبھی سفر سہولت سے کٹے گا ورنہ کوئی بہت خوفناک حادثہ آپ کے لئے ایک خوفناک یادگار کی صورت زندہ رہ جائے گا ۔ <br />
<br />
جب ہم سفر کر رہے ہوتے ہیں تو ہر منظر یکساں رفتار سے پیچھے کی طرف بھاگ رہا ہوتا ہے۔ اور دُور ہوتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے۔ ہمارا ہر گزرتا لمحہ بھی ویسا ہی ہے ابھی گزرا تو یاد ہے کچھ دن گزرتے ہی دھندلانے لگتا ہے اور آخر کار ہمیشہ کے لئے محو ہوجاتا ہے! بھولا بسرا ماضی بن جاتا ہے ۔ <br />
ماضی وقت کی وہ دھنُد ہے جس میں وقت ہلکا ہلکا جھلکتا دِکھائی دیتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دھندلاہٹ بڑھتی ہی جاتی ہے وقت کے نقوش مدھم پڑتے جاتے ہیں اورآخر کار مٹ ہی جاتے ہیں ماسوائے اُ ن کے جو ہمارے لئے امتحان ثابت ہوئے یا پھروہ بے انتہاخوشی کے لمحات جو ذہن پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو گئے۔ <br />
گاڑی میں سفر کے دوران منزل پر نظر ہوتی ہے کہ کب یہ سفر کٹے اور منزلِ مقصود پر پہنچ جائیں۔سفر کرتے ہوئے وہی چیزیں یاد رہ جاتی ہیں جو کچھ خاص حیثیت رکھتی ہیں جیسے بلند و بالا عمارت، کوئی عجیب الخلقت شے یا کوئی انہونی بات یا واقعہ جو تا دیر ہمارے ذہن پرچھایا رہتا ہے ۔ہم راستے میں گزری ہوئی کسی عام شے کو خاطر میں یوں نہیں لاتے کہ یہ تو گزر جائے گا ہمارا اس سے کیا واسطہ! <br />
لیکن اگر اسی راستے سے واپسی کے سفر کا بھی امکان ہو تو ہم غور کرتے ہیں اور واپسی کی نشانیاں باندھتے چلتے ہیں کہ واپسی میں آسانی رہے ۔ ہم پیدل سفر کرتے میں بھی راستے کی دیکھ ریکھ کرتے چلتے ہیں راستے کی کیچڑ سے دامن بچاتے چلتے ہیں نجاست کے ڈر سے بے ڈھنگی چال بھی گوارا کر لیتے ہیں کہ کہیں لباس داغدار نہ ہو جائے۔ <br />
<br />
لیکن زندگی کے سفرکا معاملہ فزوں تر ہے ہمیں اس پر واپس بھی نہیں آنا پر خیال بھی رکھنا ہے، احتیاط بھی کرنی ہے۔ <br />
ہمیں زندگی گزارنے کے لیے بھی انڈیکیٹرز دیئے گئے ہیں مگر ہم ان پر کما حقہ توجہ نہیں دیتے اور آخر کار بدی کی گاڑی سے جا ٹکراتے ہیں کوئی نہیں جانتا کہ اُس کی زندگی کا کتنا سفر باقی ہے اور کب تمام ہو جائے گا ۔ "سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں"۔ <br />
انسان ساری زندگی وہ کچھ جمع کرتا رہتا ہے جو وہ اپنے ساتھ لے جا نہیں سکتا اور جو لے جا سکتا ہے اُس کی پروا نہیں کرتا۔ دونوں ہاتھوں سے اِتنا سمیٹتا ہے کہ گھر بھر جاتا ہے پر عجیب بات یہ ہے کہ ہاتھ پھر بھی خالی ہی رہتے ہیں۔ <br />
اُس اَن دیکھے خزانے پر اُس کی نظر ہی نہیں پڑتی جو اُس کے بالکل سامنے پڑا ہوتا ہے وہ چاہے تو اُسے پل بھر میں پا لے جِس میں اُسے کسی قسم کا آگ کا دریا بھی پار نہیں کرنا، کوئی کشٹ بھی نہیں کاٹنا، لوگوں کی بُری بھلی بھی نہیں سُننی! <br />
بس دنیا کی غلاظت سے اپنے آپ کو بچانا ہی تو ہے۔<br />
کیا ہم اتنی مشقت کے روادار بھی نہیں! ؟ ہم اپنے چھوٹے سے سفر کی تو اتنی احتیاط کرتے ہیں پر زندگی کے طویل سفر پر چلنے کے اشارے ہمیں یاد نہیں رہتے جو حدود ہمارے لیے متعین کر دی گئی ہیں اُن کا خیال نہیں کرتے۔ وہ راستہ کیوں اختیار نہیں کرتے جس میں ہر طرف عزت ہی عزت اور دونوں جہاں میں سربلندی ہے ہم اس منزل کے لیے اپنی بہترین کوشش کیوں نہیں کرتے جس کا راستہ ہمیں بتا دیاگیا ہے! <br />
اور ہر سمت میں انڈیکیٹر ز لگادیئے گئے ہیں، کہ ہماری منزل آسان ہو۔ اگر ہم خلوص سے اُس راستے پر چل پڑیں تو منزل پر یقین اور بھی بڑھ جائے گا اور راستہ بھی آسان لگے گا ۔ یہ سارے خزانے اُس کے بتائے ہوئے راستے پر بے مول ہی مل جاتے ہیں ۔ زندگی کا سفر کتنا آسان اور خوشگوار ہوجائے اگر ہم دکھوں پر صبر کریں اور ہر حال میں اُس کا شکر کریں ۔ <br />
<br />
گُل بانو<br />
18 ستمبر 2012Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-52490496314453010002017-12-17T17:00:00.000+05:302017-12-18T14:17:02.600+05:30ممتاز اردو ادیبہ ہاجرہ مسرور کی وفات<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjzWjHqe817ft6O3V-U6jjyWYUG_q5ROzdpWSqMMISwu1ncNbjoeVByFd89siPWc_tgszLrSKaLy0SH8416OtUGSUVJlZcFKNns00id5AMspX_Qm9wKUSBLy2wQD_lECTHiF9Q5v2PPOTM/s1600/hajira-masroor.jpg" imageanchor="1" style="clear: right; float: right; margin-bottom: 1em; margin-left: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjzWjHqe817ft6O3V-U6jjyWYUG_q5ROzdpWSqMMISwu1ncNbjoeVByFd89siPWc_tgszLrSKaLy0SH8416OtUGSUVJlZcFKNns00id5AMspX_Qm9wKUSBLy2wQD_lECTHiF9Q5v2PPOTM/s1600/hajira-masroor.jpg" alt="hajira masroor" data-original-width="300" data-original-height="423" /></a></div>15/ستمبر/2012 کو ممتاز ادیبہ ہاجرہ مسرور کی وفات ۔۔۔۔ <br />
۔۔۔ کہ جن کے افسانے اور ناولوں نے ایک نسل کی ذہنی و لسانی آبیاری کی ۔۔۔<br />
انا للہ وانا الیہ راجعون<br />
<br />
***<br />
سوگوار و غم گسار:<br />
سیدانورجاویدہاشمی<br />
کراچی <br />
سولہ ستمبر سن دو ہزار بارہ عیسوی<br />
<br />
1930ء میں لکھنؤ غیر منقسم برصغیر میں جنم لینے والی ہاجرہ مسرور نے گزشتہ روز 82 برس کی عمر میں 15 ستمبر 2012 کو اپنی آخری آرامگاہ میں ابدی ٹھکانہ بنالیا۔ 1971ء میں ڈان کے ایڈیٹر احمد علی خاں سے شادی کی دو صاحبزادیاں سوگوار چھوڑ کر اپنے مرحوم شوہر کی طرف کوچ کرگئیں .<br />
ان کی ہمشیرہ خدیجہ مستور کی شادی احمد ندیم قاسمی کے بھانجے ظہیر بابر سے ہوئی تھی اور وہ بھی عازم جنت ہوچکی تھیں۔ فروغ اردو ایوارڈ دوحہ قطر کے لیے ان کی نام زدگی پر ہم نے فیض صاحب کے مضامین کے مجموعے "میزان"سے اردو لغت بورڈ میں ہاجرہ مسرور کی افسانہ نگاری پر مضمون نقل کرکے بھجوایا تھا اور مجلہ ہمیں عزم بہزاد نے لاکے دیا تھا وہی یہ سارا مواد کراچی سے لے کر مجلے کی تزئین و آرائش کے لیے گئے تھے۔ نیٹ فورمز پر ہماری اردو ادب اور اردو سے محبت کرنے والوں کی حوصلہ افزائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ <br />
<br />
فیس بک پوسٹ: <a href="https://www.facebook.com/taemeer/posts/285245104917763">16/ستمبر/2012</a><br />
<br />
<blockquote>بشکریہ: <a href="https://www.facebook.com/aqeelabbasjafri/posts/10151026956060496">عقیل عباس جعفری فیس بک ٹائم لائن</a><br />
اردو کے ادبی اور علمی حلقوں میں یہ بات ابتہائی افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ برصغیر میں حقوقِ نسواں کی علمبردار اور ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور 15 ستمبر 2012 ء کو کراچی میں تراسی سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ان للہ و انا الیہ راجعون ۔۔ <br />
<br />
ہاجرہ مسرور کا آبائی تعلق ہندوستان کے مرکزِ علم و ادب لکھنئو سے تھا۔ جہاں وہ 17جنوری 1930ء کو پیدا ہوئی تھیں ۔ان کے والد ڈاکٹر تہور احمد خان برطانوی فوج میں ڈاکٹرتھے۔<br />
ہاجرہ مسرور کی پیدائش کے کچھ برس بعد دل کے دورے سے ان کے والد انتقال کرگئے اور خاندان کی ذمہ داری اُن کی والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔<br />
<br />
والد کے انتقال کے بعد ان کا گھرانہ نامساعد حالات کا شکار ہوا اور انہوں نے سخت حالات میں پرورش پائی۔ہاجرہ کی والدہ کٹھن وقت میں نہایت باہمت خاتون ثابت ہوئیں۔ انہوں نے اپنے چھ بچوں کی تربیت اور پرورش نہایت اچھے اندازمیں کی۔یہ کُل پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ ان کی بہن خدیجہ مستور بھی اُردو کی معروف ادیب تھیں۔ اُردو ادب کا تذکرہ ان دونوں بہنوں کے بغیر نامکمل رہے گا۔ہاجرہ مسرور کے ایک توصیف احمد صحافت سے وابستہ رہے جبکہ ایک اور بھائی خالد احمد کا شمار اپنی نسل کے ممتاز شاعروں میں ہوتا ہے <br />
<br />
تقسیمِ ہند کے بعد ہاجرہ اپنی بہن خدیجہ کے ساتھ پاکستان آگئیں اورلاہورمیں سکونت اختیار کرلی۔اُس زمانے میں لاہورپاکستان کی ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اورخود ہاجرہ بطورکہانی و افسانہ نگاراپنا عہد شروع کرچکی تھیں۔ ادبی حلقوں میں اُن کی پہچان ہوچکی تھی۔<br />
<br />
ہاجرہ نے بچپن سے ہی مختصر کہانیاں لکھنا شروع کردی تھیں جو اپنے وقت کے معروف اُردو ادبی رسائل میں شائع ہوتی تھیں۔ ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں ابتدا سے ہی بہت پذیرائی حاصل رہی تھی۔<br />
<br />
ہاجرہ لاہور میں معروف ادیب احمد دیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ ‘نقوش’ مرتب کرتی تھیں۔ قاسمی صاحب کی دونوں ادیب بہنوں ہاجرہ اورخدیجہ سے بہت اچھی دوستی تھی۔<br />
<br />
ہاجرہ مسرور کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے موضوعات سماج و سیاست ، قانون و معیشت کی ناہمواریوں اور، خواتین کے استحصال کے گرد گھومتے ہیں ۔۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں اُردو ادب کی اس ممتاز افسانہ نگار کو حقوقِ نسواں کی علمبردار کہا جاتا ہے۔<br />
<br />
ہاجرہ مسرور کو اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔۔حکومتِ پاکستان نے ادب کے شعبے میں ان کی نمایاں خدمات پر 1995ء میں تمغہ حُسنِ کارکردگی’ دیا۔ 2005ء میں انہیں ‘عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ’ بھی دیا گیا تھا۔<br />
<br />
ہاجرہ مسرور نے پاکستانی فلمی صنعت کے اچھے دنوں میں کئی فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے۔ ان کے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز ‘نگار ایوارڈ’ بھی دیا گیا۔<br />
<br />
انہوں نے اُنیسو پینسٹھ میں بننے والی پاکستانی فلم ‘آخری اسٹیشن’ کی کہانی بھی لکھی تھی۔ یہ فلم معروف شاعر سرور بارہ بنکوی نے بنائی تھی۔<br />
<br />
ان کے افسانوں کا مجموعہ اُنیسو اکیانوے میں لاہور کے ایک ناشر نے ‘میرے سب افسانے’ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔<br />
<br />
افسانوں اور مختصر کہانیوں کے علاوہ انہوں نے ڈرامے بھی لکھے تھے۔<br />
<br />
چند سال قبل آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے بچوں کے لیے لکھی اُن کی کئی کہانیاں کتابی شکل میں شائع کی تھیں۔<br />
<br />
ہاجرہ لاہور میں معروف ادیب احمد دیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ ‘نقوش’ مرتب کرتی تھیں۔ قاسمی صاحب کی دونوں ادیب بہنوں ہاجرہ اورخدیجہ سے بہت اچھی دوستی تھی۔<br />
<br />
ہاجرہ مسرور کی تحریریں معاشرے کی منفاقتوں کی کھل کرعکاسی کرتی تھیں، جس پر انہیں بھی منٹو اورعصمت چغتائی کی طرح سماج کے قدامت پسند حلقوں کی طرف سے بدترین تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔<br />
<br />
اُردو ادب میں ان کی شناخت روایت شکن تحریریں ہیں جو تیز دھار خنجر کی مانند معاشرے پر پڑے وہ پردے چاک کردیتی تھی، جس کی آڑ میں صنفِ نازک کا استحصال ہوتا ہے۔<br />
<br />
ہاجرہ مسرور کی شادی معروف صحافی احمد علی خان سے ہوئی تھی ۔ جو شادی کے وقت انگریزی روزنامہ ‘پاکستان ٹائمز’ کے ایڈیٹر تھے۔۔۔۔ انیسو تھہتر میں احمد علی نے بطور ایڈیٹر روزنامہ ‘ڈان’ جوائن کیا اور کراچی آگئے۔ وہ اٹھائیس برس تک ڈان کے ایڈیٹر رہے۔ ان کا انتقال 27مارچ 2007ء کو ہوا۔حاجرہ اور احمد علی کی دو بیٹیاں ہیں۔ ایک نوید احمد طاہر اور دوسری نوشین احمد ہیں۔<br />
<br />
کئی برس تک لاہور میں سرگرم ادبی زندگی بسر کرنے والی ہاجرہ مسرور نے شادی کے بعد خود کو گھر تک محدود کرلیا۔ ان کی ادبی سرگرمیاں ختم ہوچکی تھیں اور وہ مکمل طور پر خانہ دار خاتون بن گئی تھیں۔<br />
<br />
کئی دہائیوں کی گوشہ نشینی کے بعد پہلی بار، پُرزور اصرار پر وہ کئی سال پہلے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں منعقدہ تقریب ایک ادبی تقریب میں شریک ہوئیں۔یہ تقریب برِ صغیر کی معروف ادیبہ قرت العین حیدر کے اعزازمیں منعقد ہوئی تھی۔<br />
<br />
خود کو دہائیوں سے گوشہ نشین کرلینے والی اُردو کی نامور ادیب کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے کم ازکم سات مجموعے شائع ہوئے، ان میں ‘چاند کے دوسری طرف’، ‘تیسری منزل’، ‘اندھیرے اُجالے’، ‘چوری چھپے’، ‘ ہائے اللہ’، ‘چرکے’ اور ‘وہ لوگ’ شامل ہیں</blockquote>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-82661862971771165962017-12-16T16:00:00.000+05:302017-12-18T14:03:37.294+05:30گنڈی پیٹ کا پانی اور حیدرآبادی پی۔آر شپ<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgmkdihMe10HgoSjw8CyFiYiDgCNV5l9ocOlVD32P4Sp4axN5wqtXxUIhYV42-zfOExTDCovl5gUmhx66nU-o2ZxRVkhlbPrB54FoIDf-VuXVOrrXssojUgj9HcsmP9FG3XU0epbGrlXao/s1600/osman-sagar-gandipet.jpg" imageanchor="1" style="clear: right; float: right; margin-bottom: 1em; margin-left: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgmkdihMe10HgoSjw8CyFiYiDgCNV5l9ocOlVD32P4Sp4axN5wqtXxUIhYV42-zfOExTDCovl5gUmhx66nU-o2ZxRVkhlbPrB54FoIDf-VuXVOrrXssojUgj9HcsmP9FG3XU0epbGrlXao/s1600/osman-sagar-gandipet.jpg" alt="osman-sagar-gandipet hyderabad" data-original-width="300" data-original-height="199" /></a></div>جو اصحاب حیدرآباد سے ناواقف ہیں ان کی اطلاع کے کیے عرض کر دوں کہ گنڈی پیٹ ایک وسیع و عریض تالاب کا مقامی نام ہے جس کا پانی سارے شہر کو پینے کے لیے سربراہ کیا جاتا تھا۔ سرکاری طور پر اگرچہ اسے عثمان ساگر کا نام دیا گیا ہے لیکن عوام اسے گنڈی پیٹ ہی کہتے ہیں جو دراصل اس دیہات کا نام تھا جہاں یہ تالاب بنایا گیا۔ اب تو اس تالاب کی ہڈیاں نکل آئی ہیں ، اس کا حسن مدھم پڑ چکا ہے لیکن آج بھی لوگ جوق در جوق تفریح کے لیے وہاں جانا نہیں بھولتے۔ اور کہا جاتا ہے کہ جو ایک بار گنڈی پیٹ کا پانی پی لے وہ حیدرآباد کو کبھی بھلا نہیں پاتا۔<br />
<br />
حیدرآباد میں ہر دور میں طرح طرح کے پھول کھلتے رہے اور دنیا بھر میں اپنی خوشبو بکھیرتے رہے۔ یہ اور بات ہے کہ حیدر آبادی مزاج میں پی آر شپ ، اپنے آپ کو بڑھ چڑھ کر منوانے کی خصوصیت اور دوسروں کو گرانے کا رویہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے افسانوی انکسار کے سبب حیدرآباد کے ادیب، شاعر، فن کار اور عالم پردۂ گمنامی میں میں رہے۔ کسی نے نام لے لیا تو لے لیا ، خود سے آگے بڑھ کر حیدر آبادی فن کاروں نے خود کو کبھی نہیں منوایا۔<br />
<br />
***<br />
اقتباس از مضمون "علی باقر" (مضمون نگار : پروفیسر رحمت یوسف زئی)۔<br />
<br />
فیس بک پوسٹ: <a href="https://www.facebook.com/taemeer/posts/161244757317799">15/جنوری/2012</a>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-13883163540360429172017-12-15T13:45:00.000+05:302017-12-18T13:57:20.742+05:30جہیز - مسلم سماج کا ایک رِستہ ناسور<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiDJoDVuTbNhq4bNnVOK50oaoXc0Ilhszh0gJXy-9CZ9i54b-xOxgMAc8dh2qnru8RSxELluu2CI5EuZ7PxluqK2WpfRDSzXZQOsCh7b8TrPb3IizFEcKQsMWQ7SqfMGyk99ySZiXpERWs/s1600/dowry-an-evil.jpg" imageanchor="1" style="clear: right; float: right; margin-bottom: 1em; margin-left: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiDJoDVuTbNhq4bNnVOK50oaoXc0Ilhszh0gJXy-9CZ9i54b-xOxgMAc8dh2qnru8RSxELluu2CI5EuZ7PxluqK2WpfRDSzXZQOsCh7b8TrPb3IizFEcKQsMWQ7SqfMGyk99ySZiXpERWs/s1600/dowry-an-evil.jpg" alt="dowry an ulcer an evil" data-original-width="300" data-original-height="234" /></a></div>ہندوستان کا مسلم سماج جن امراض کا شکار ہے ان میں سب سے نمایاں اور شدید مرض غیر اسلامی رسوم و رواج کا غلبہ ہے ۔ یہ رسوم و رواج اس حد تک مسلم سماج میں نفوذ پا چکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی زندگی کا لازم حصہ بن گئے ہیں ۔ ان رسوم و رواج نے جہاں اسلام کی سادگی اور ضروری امور میں ممکنہ آسانی کو ختم کردیا ہے وہیں اسراف و فضول خرچی کا راستہ دکھا کر کئی خاندانوں کو سودی قرض کی لعنت میں مبتلا کردیا ہے ۔ ان رسوم و رواج میں زیادہ شدید وہ ہیں جو ایک مسلم مرد اور ایک مسلم عورت کے درمیان نکاح کے رشتہ سے وابستہ ہوگئے ہیں ۔ لڑکی والوں سے رقم کا مطالبہ ، اس پر اصرار اور اس کو نکاح کا لازمی جز سمجھنا ، یہ تمام غیر اسلامی باتیں اس طرح رواج پا چکی ہیں کہ ہر خاندان ، لڑکی اور لڑکی والوں کی دینی حالت و کیفیت ، ان کے اخلاق و اطوار ان کے طور طریق وغیرہ کو نظر انداز کر کے ، اپنے لڑکے کا رشتہ اس لڑکی سے کرنے کے لیے کوشاں رہنا ہے جس کے خاندان والے زیادہ سے زیادہ رقم دے سکیں ۔ یہ دکن کے علاقہ میں گھوڑے جوڑے اور شمال میں تلک وغیرہ کے نام سے موسوم ہے اور اگر علیم خان فلکی صاحب نے اس کو نیلام یا آکشن سے تعبیر کر کے اس کو مرد کا بِکنا قرار دیا ہے تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے کیوں کہ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی والوں سے پیسہ لیے بغیر رشتہ نکاح پاتا ہو ۔<br />
<br />
نکاح ، مرد و عورت کے فطری جنسی جذبات کی تسکین کا جائز طریقہ ہی نہیں بلکہ عبادت بھی ہے۔ اگر اسلام کے مزاج کو دیکھا جائے تو یہ محسوس ہوگا کہ یہ دین نہیں چاہتا کہ کوئی عورت بے شوہر اور کوئی مرد بے بیوی رہے ۔ اس لیے بیواؤں کی شادی کی ہمت افزائی کی گئی ۔ اسلام نے اپنے اسی مزاج کی برقراری کے لیے نکاح کو بہت آسان اور سادہ بنایا ۔نہ خرچ و اسراف نہ پیچیدہ رسومات ۔ لیکن مسلمانوں نے جس کو اسلام نے آسان بنایا تھا غیر اسلامی رسوم اور خرافات کے ذریعہ اس کو مشکل بنادیا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں میں دورِ جاہلیت کے عربوں جیسا طرزِ فکر آگیا ہے ۔ دور جاہلیت میں عرب لڑکی کی پیدائش پر تشویش میں مبتلا اس لیے ہوتے تھے کہ کسی کو اپنا داماد بنانا معیوب جانتے ہیں اور اتنا معیوب سمجھتے تھے کہ بعض اپنی ننھی پیاری بیٹی کو زندہ دفن کردینے کی غیر انسانی حرکت سے تک چوکتے نہ تھے اور آج لڑکی کی پیدائش ، ماں اور باپ دونوں کے لیے فکر اور تشویش کی بات اس لیے بن جاتی ہے کہ جب یہ بڑی ہوگی ، جوان ہوگی تو اس کی شادی کے لیے کیسے گھوڑے جوڑے کی رقم کا اور لڑکے والوں کے مطالبہ کو پورا کرنے کا انتظام ہوگا ۔ کہاں سے جہیز کی سبیل ہوگی ۔ گھوڑے جوڑے اور جہیز کی اس لعنت کا نتیجہ ہے کہ لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی جوانی کی عمر سے ان بیاہی آگے نکل رہی ہے کیوں کہ ان کے والدین یا سرپرست نہ گھوڑے جوڑے کی رقم فراہم کرسکتے ہیں اور نہ جہیز میں وہ سب دے سکتے ہیں جن کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ یہ صورت حال بڑی تشویشناک ہے اس سے کئی سماجی برائیاں جنم لے سکتی ہیں اور جنسی بے راہ روی کو سماج میں راہ مل سکتی ہے یہ خطرناک صورتحال محض گھوڑے جوڑے اور جہیز کے مطالبات کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے ۔<br />
<br />
بحوالہ:<br />
<a href="http://jahez.aleemkhanfalaki.com/main-pages/muslim-samaj-naasoor/">مسلم سماج کا ایک رِستہ ناسور ۔ جوڑا جہیز</a><br />
<br />
فیس بک پوسٹ: <a target="_blank" href="https://www.facebook.com/taemeer/posts/145610208869425">30/ستمبر/2011</a>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-45380338581611087152013-09-13T17:59:00.001+05:302013-09-13T18:14:48.870+05:30Choosing RTL option in gmail - جی-میل میں اردو زبان کا درست استعمالChoosing Right-to-Left language direction option in gmail - جی-میل میں اردو زبان کا درست استعمال<br />
<a name='more'></a><br />
<div class="engtxt" style="padding: 5px 10px; font-family: 'Times New Roman',Times,serif,Sans-Serif; letter-spacing: 1px;">This article shows you how to write Right-to-Left language URDU properly in gmail or any text-editor like MS-Word or Notepad etc.<br />
</div><br />
<div class="urdtxt" style="line-height: 26px; padding: 5px 10px; direction: rtl; font-size: 18px; text-align: right;">انٹرنیٹ پر یونیکوڈ اردو کی روز افزوں ترقی کے باعث اردو داں netizens آج کل ای-میل بھی اردو رسم الخط میں کر رہے ہیں جو ایک خوش آئیند امر ہے۔<br />
انگریزی کے بالمقابل اردو چونکہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے ، اسی سبب اردو ای-میل استعمال کرنے والوں کو مغالطہ ہوتا ہے کہ اگر تحریر کا alignment دائیں سے بائیں کر لیا جائے تو اردو دائیں سے بائیں بخوبی لکھی اور پڑھی جا سکے گی۔<br />
لیکن ۔۔۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ صرف alignment تبدیل کر لینے سے ، اردو بےشک دائیں سے بائیں لکھی جا سکے گی مگر دائیں سے بائیں درست طور سے نہیں پڑھی جا سکے گی بالخصوص اس وقت جب تحریر کے درمیان انگریزی کا ایک یا ایک سے زیادہ الفاظ کا استعمال ہو۔<br />
<br />
یہاں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ۔۔۔ کسی بھی ٹکسٹ ایڈیٹر میں (چاہے وہ MS-Word ہو یا Notepad یا اوپن آفس Writer یا ای-میل ٹکسٹ ایڈیٹر) ، اردو لکھنا ہو تو ۔۔۔ "تحریر کا رخ" نہیں بلکہ "زبان کا رخ" پہلے تبدیل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ تحریر کا رخ (alignment) تو بعد میں بھی تمام تحریر کو select کر کے بآسانی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔<br />
<br />
ہر ٹکسٹ ایڈیٹر میں زبان کے دو رخ (بائیں سے دائیں + دائیں سے بائیں) درج ذیل علامتوں کے ذریعے نمایاں کیے جاتے ہیں۔<br />
بائیں سے دائیں [LTR] - <img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgH8FIivdfxYmt8xOc6JaTfX81B-9-GsO8NLbroS20Pe0rnHlt9Ekava2XPxGbnR_lgGvkno87kn_uTMoSVsByaSIwOXCkw1BmovtLKaEzwifQDcmiEYrNq76-THin8LmwnrtHbFZdoRc4/s1600/LTR-language-option.gif" /><br />
دائیں سے بائیں [RTL] - <img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgY1DDOR-pe5oPqwI1y8XlTnvcrE3pwZRMFQJ9A7IOdiDH0-auMiEuMyHUFlNs0bwhoBxsF2TnWCQp34UZuuhAvCpgT5a-SIsJ7zpANcrqbkQXje-480iTAezENl9atG43hdB7VLaAiZzc/s1600/RTL-language-option.gif" /><br />
<br />
لہذا جب اردو رسم الخط میں کچھ لکھنے کا ارادہ ہو تو متذکرہ بالا علامت کے انتخاب کے ذریعے پہلے "زبان کا رخ" تبدیل کر لینا چاہیے۔<br />
سردست یہاں جی-میل کمپوزنگ ایڈیٹر کا ذکر بہتر ہوگا۔ درج ذیل تصویر ملاحظہ فرمائیں : (بڑے سائز میں دیکھنے کے لیے تصویر کو کلک کیجیے)<br />
</div><table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhiR7GZ_SlXx_TRRq93KOx0gUpLEmrY4WGSdDs0D4h3H-pFnFtimrqko6bq3pt9bb2QX3fAmo1vmC9M22avSh6GXJ3-N8IWF09RJPb6YsIKEc9Qlgns9FFNOmuXggwY5TtGJxeOX7gKFVs/s1600/gmail-composing-editor.gif" imageanchor="1" style="clear: right; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhiR7GZ_SlXx_TRRq93KOx0gUpLEmrY4WGSdDs0D4h3H-pFnFtimrqko6bq3pt9bb2QX3fAmo1vmC9M22avSh6GXJ3-N8IWF09RJPb6YsIKEc9Qlgns9FFNOmuXggwY5TtGJxeOX7gKFVs/s400/gmail-composing-editor.gif" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">Click on the image to see in its full size</td></tr>
</tbody></table><br />
<div class="urdtxt" style="line-height: 26px; padding: 5px 10px; direction: rtl; font-size: 18px; text-align: right;">پہلی دو سطروں میں "زبان کا رخ" تبدیل نہیں کیا گیا ہے لہذا default رخ ، بائیں سے دائیں [LTR] ہی ہے۔<br />
پہلی سطر میں تحریر کا رخ بائیں سے دائیں ہے جبکہ دوسری سطر میں دائیں سے بائیں ۔۔۔۔ اس کے باوجود دونوں سطریں درست طور سے پڑھنے کے قابل نہیں ہیں۔<br />
<br />
اب تیسری اور چوتھی سطر دیکھئے۔ یہ دونوں سطریں ، "دائیں سے بائیں" والے "زبان کا رخ" منتخب کر کے لکھی گئی ہیں۔ تیسری سطر میں ، تحریر کا رخ بائیں سے دائیں ہے جبکہ چوتھی سطر میں تحریر کا رخ دائیں سے بائیں۔ اس کے باوجود دونوں سطریں درست طور سے پڑھنے کے قابل ہیں۔<br />
<br />
بہت ممکن ہے کہ کسی کو اپنے جی-میل کمپوزنگ بکس میں "زبان کا رخ" تبدیل کرنے والی علامت نظر نہ آئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ۔۔ یہ علامت default طور پر شامل نہیں ہوتی ہے بلکہ اسے علیحدہ سے شامل کیا جانا پڑتا ہے جو کہ بہت آسان طریقہ ہے۔<br />
اپنے جی-میل اکاؤنٹ کے بالکل اوپر سیدھی جانب کے bolt شکل کے نشان کو کلک کیجیے (نیچے تصویر ملاحظہ فرمائیں) اور پھر Settings کو کلک کریں۔<br />
</div><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEieZOAuHXDiSZGBgMYHBE_D4u_oim1F3zjP_gcDf2mLxHaWdIknWpg3v0CuCoSvWUrZlFJ2ldOvIXa88ky-rWOmC19Ehr9BcuCDfLLL1HuvP5gszLUoZ0Q3_yiNd1_Qg5mlm2fVYcoUF5E/s1600/gmail-settings-button.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEieZOAuHXDiSZGBgMYHBE_D4u_oim1F3zjP_gcDf2mLxHaWdIknWpg3v0CuCoSvWUrZlFJ2ldOvIXa88ky-rWOmC19Ehr9BcuCDfLLL1HuvP5gszLUoZ0Q3_yiNd1_Qg5mlm2fVYcoUF5E/s1600/gmail-settings-button.gif" /></a></div><br />
<div class="urdtxt" style="line-height: 26px; padding: 5px 10px; direction: rtl; font-size: 18px; text-align: right;">آپ کے جی-میل اکاؤنٹ کا Settings والا صفحہ کھل جائے گا۔ (نیچے تصویر ملاحظہ فرمائیں) (بڑے سائز میں دیکھنے کے لیے تصویر کو کلک کیجیے)<br />
</div><table cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiFoCSXToaL1DiWdN06XLjxtLXM31p9L_khoHM_rIaIc9vSbL8emZPDxeawRhMktFOQBjzs6l_3WV9Y6_VE1E5K7Ur1dQPxYI10nZmL1mU14CVG7MIryXhvRmTS9vqBWZ-bdgjsAEm7Duw/s1600/gmail-settings-page.gif" imageanchor="1" style="clear: right; margin-bottom: 1em; margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiFoCSXToaL1DiWdN06XLjxtLXM31p9L_khoHM_rIaIc9vSbL8emZPDxeawRhMktFOQBjzs6l_3WV9Y6_VE1E5K7Ur1dQPxYI10nZmL1mU14CVG7MIryXhvRmTS9vqBWZ-bdgjsAEm7Duw/s400/gmail-settings-page.gif" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">Click on the image to see in its full size</td></tr>
</tbody></table><br />
<div class="urdtxt" style="line-height: 26px; padding: 5px 10px; direction: rtl; font-size: 18px; text-align: right;">Language والے option کے ذیل میں آپ "دائیں سے بائیں" والے بٹن [Right-to-left editing support on] کو کلک کر دیجیے اور آخر میں Save Changes والے بٹن کو دبا دیں۔<br />
اس طرح آپ کے جی۔میل کمپوزنگ ایڈیٹر میں زبان کے دونوں رخ بتانے والی علامت شامل ہو جائے گی جس کے ذریعے آپ اردو لکھتے وقت "دائیں سے بائیں" والے رخ کا انتخاب کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔<br />
</div>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com29tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-11200958523997023472012-12-04T12:53:00.000+05:302017-12-18T13:40:39.049+05:30opensource unicode Nastaleeq Font - اوپن سورس یونیکوڈ نستعلیق فونٹwhy we need opensource unicode Nastaleeq Font - اوپن سورس یونیکوڈ نستعلیق فونٹ کی ضرورت<br />
<a name='more'></a><br />
<div id="tamcontur"><div id="tamconten"><div id="tamcolen"><div class="engtxt">Why Urdu community of internet doesn't have a free i.e. open-source unicode "Noori Nastaleeq" font?<br />
the below Urdu passage clearly mentioned it that .....<br />
"Noori nastaleeq" ligatures have been developed by Mirza Jameel Ahmed and they have sold this to Inpage program's developer from India. {Concept Software ; http://www.inpage.com}<br />
also... have a look on this developer's interview at daily Munsif (Hyderabad) long before:<br />
[ <a href="http://andleebindia.blogspot.com/2009/01/interview-of-inpage-developer.html">http://andleebindia.blogspot.com/2009/01/interview-of-inpage-developer.html</a> ]<br />
<br />
[Please see the Urdu passage at right side in QUOTES]<br />
<br />
so what?<br />
the problem arises that an UrduDaaN cannot use this Noori Nastaleeq Font (even after the release of its unicode version by Mirza Jameel Ahmed himself) freely as and when required because it is the commercial property of Concept Software. Hence janab Shakir-ul-Qadree came forward with the sole aim of developing a free open-source unicode nastaleeq font dedicated to the todays techno savvy urdu community. so is this short story of the birth of "Alqalm Taj Nastaleeq unicode Font".<br />
We salute to janab Shakir-ul-Qadree. very much Thank you Sir.<br />
</div></div><div id="tamcolur"><div class="urdtxt"><a href="http://www.taemeer.com/2012/11/taj-nastaleeq-font-release.html">القلم تاج نستعلیق یونیکوڈ فونٹ</a> کے اجرا سے قبل اردو کمیونیٹی کو کوئی مفت یعنی اوپن سورس یونیکوڈ نستعلیق فونٹ دستیاب نہیں تھا۔ گو کہ جمیل نوری نستعلیق یونیکوڈ فونٹ موجود ہے مگر فونٹ کے تخلیق کار مرزا جمیل احمد نے اس کے لگیچرز "ان پیج" سافٹ وئر کو فروخت کر رکھے ہیں لہذا اس فونٹ کو کمرشیل سطح پر نہ مفت استعمال کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی ویب سائیٹ پر ڈاؤن لوڈ کے لیے عام قاری یا صارف کو مہیا کرایا جا سکتا ہے۔ علوی نستعلیق یونیکوڈ فونٹ کے ساتھ بھی قانونی مسئلہ یہ ہے کہ اس کے تقریباً تمام لگیچرز جمیل نوری نستعلیق سے حاصل کیے گئے ہیں۔<br />
لہذا اسی صورتحال کے پیش نظر القلم تاج نستعلیق یونیکوڈ فونٹ کا اجرا اوپن سورس فونٹ کے طور پر عمل میں آیا ہے۔<br />
پچھلے دنوں تاج نستعلیق فونٹ کے خالق جناب شاکر القادری کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی تو انہوں نے اس صورتحال کا آسان الفاظ میں یوں تجزیہ کیا ۔۔۔<br />
<blockquote>[<br />
شاکر صاحب نے 1980ء میں مرزا جمیل احمد کے پاکستان میں نوری نستعلیق کے ترسیمے بنانے سے بات شروع کی۔ پھر مشینی نستعلیق رسم الخط پر تاریخی حوالے سے بات چیت کی۔ ۔۔۔ مثلاً نوری نستعلیق کے ترسیموں کی ہندوستان کو فروخت، ہندوستان کی سافٹ ویئر کمپنی کا ان پیج بنانا۔ پاکستان میں چوری شدہ ان پیج کا بڑے پیمانے پر استعمال۔ 2008ء میں علوی اور جمیل نوری نستعلیق (یونیکوڈ ورژن) کا بننا، اردو پبلشنگ پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے مختلف اداروں اور لوگوں کی امجد حسین علوی کو دھمکیاں۔ ایسے حالات میں اردو کمیونٹی کا اپنا اوپن سورس نستعلیق بنانے پر غور کرنا اور پھر شاکرالقادری اور ان کی ٹیم کا القلم تاج نستعلیق بنانا۔<br />
اسی دوران حاضرین میں موجود ایک صاحب رحمان حفیظ نے شاکرالقادری صاحب سے نوری نستعلیق مفت ہونے اور نہ ہونے کے متعلق چند سوالات کیے۔ جن کے جواب میں شاکرالقادری صاحب نے تفصیل سے بتایا کہ ۔۔۔۔<br />
<br />
ایک دفعہ ہم نے مرزا جمیل احمد سے رابطہ کیا تھا کہ اتنے سال ہو گئے ہیں اور لوگوں نے نوری نستعلیق سے بہت پیسا کما لیا ہے اب تو مفادِ عامہ کے لئے نوری نستعلیق عوام کو دے دیا جائے یعنی مفت کر دیا جائے تاکہ اردو کی ترویج آسان ہو سکے مگر مرزا جمیل احمد نے صاف انکار کر دیا۔ <br />
شاکر صاحب نے مزید بتایا کہ جب ہم اوپن سورس القلم تاج نستعلیق بنا رہے تھے تو اس دوران مرزا جمیل احمد کے بیٹے نے ہم سے رابطہ کیا اور القلم تاج نستعلیق فروخت کرنے کی آفر کی۔ اس کے علاوہ ان پیج والوں نے بھی رابطہ کیا اور سات آٹھ لاکھ روپے کی آفر کی، مگر ہم نے سب کو انکار کر دیا اور واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ ہم یہ فانٹ اردو والوں کے لئے بنا رہے ہیں اور مفت میں عوام کو دیں گے۔ <br />
<br />
شاکر صاحب نے کہا کہ اب آپ خود سوچئے کہ مرزا جمیل احمد کا بیٹا اور ان پیج والے القلم تاج نستعلیق کو مفت میں عوام تک کیوں پہنچنے نہیں دے رہے تھے؟ ویسے شاکر صاحب کے اس سوال کا جواب تو شاید ایک عام آدمی کے پاس بھی ہو اور وہ یہ ہے کہ سیدھی سی بات ہے، یہ ادارے اردو پر اپنی اجارہ داری قائم رکھتے ہوئے مال بنانا چاہتے ہیں۔<br />
<br />
Quoted above with thanks to: <a href="http://www.mbilalm.com/blog/when-volunteers-of-urdu-meet/">M.Bilal.M</a><br />
]</blockquote></div></div></div></div>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-56745292599569994092012-11-09T01:58:00.000+05:302012-11-09T02:25:36.542+05:30taj nastaleeq font | تاج نستعلیق فونٹrelease of taj nastaleeq font | تاج نستعلیق فونٹ کا اجرا<br />
<a name='more'></a><br />
<center><a href="http://taj.alqlm.org" target="_blank"><img src="http://imageshack.us/a/img197/507/halfbannertajnastaleeqb.png" border="0"></a><br />
</center><div id="tamcontur"><div id="tamconten"><div id="tamcolen"><div class="engtxt">AlQalm Taj Nastaleeq Font is the very first IndoPak ligature based open source Lahori Nastaleeq Font developed and Copyright (c) by Syed Abrar Hussain Shakir ul Qadree. Its "lahori nastaleeq ligatures" are based on famous calligraphist Tajuddin Zarreen's work.<br />
<br />
Font name : AlQalam Taj Nastaleeq-Regular<br />
OpenType layout<br />
Font size : 15.4 MB<br />
Download link :<br />
<a href="http://taj.alqlm.org/index.html">http://taj.alqlm.org/index.html</a><br />
</div></div><div id="tamcolur"><div class="urdtxt">القلم تاج نستعلیق فانٹ -- برصغیر پاک و ہند کا وہ پہلا ترسیمہ جاتی اوپن سورس لاہوری نستعلیق فانٹ ہے جس کا آج بروز جمعہ بتاریخ 9/نومبر/2012 کو اجرا کیا گیا ہے۔<br />
<br />
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے والے فانٹس (علوی نستعلیق ، جمیل نوری نستعلیق ، عماد نستعلیق وغیرہ) تجارتی استعمال کے لیے تھے اور ان کے مفت استعمال پر پابندی تھی جبکہ القلم تاج نستعلیق کے ترسیموں کو بلا خوف و خطر بالکل بلا معاوضہ ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے البتہ اسکا تجارتی استعمال ممنوع ہے۔ اس فانٹ کے جملہ حقوق محفوظ کروائے گئے ہیں اور کسی بھی کمرشل سافٹ ویئر کے ساتھ استعمال کے لیے اس کے خالق سے اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا بصورت دیگر قانونی کارروائی کا حق محفوظ ہے۔<br />
اس فانٹ سے متعلق تفصیل یہاں مطالعہ فرمائیں :<br />
<br />
<a href="http://alqlm.org/fonts/%D8%A7%D9%84%D9%82%D9%84%D9%85-%D8%AA%D8%A7%D8%AC-%D9%86%D8%B3%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%82/">القلم تاج نستعلیق</a><br />
</div></div></div></div>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-84136567565580577742011-11-25T19:18:00.005+05:302017-12-18T13:41:31.054+05:30Wordpress Adsense problem | ورڈپریس میں ایڈسنس کا مسئلہAdsense problem, not showing in wordpress | ورڈپریس میں ایڈسنس نہ دکھائی دینے کا مسئلہ<br />
<a name='more'></a><br />
<div id="tamcontur"><div id="tamconten"><div id="tamcolen"><br />
<div class="engtxt">If Adsense is not showing on your Wordpress sites, there may be several reasons behind it which can be easily find out through through google searching.<br />
But before searching or following them, try this simple trick first.<br />
Go to your wordpress admin section:<br />
Settings > General<br />
Then add "<b>www.</b>" after the "<b>http://</b>" under the two textbox of :<br />
<ul><li>WordPress address (URL)</li>
<li>Site address (URL)</li>
</ul>Then Save the changes.<br />
Open your site and check again. Adsense will be there.</div><br />
</div><div id="tamcolur"><br />
<div class="urdtxt">اگر آپ کو گوگل ایڈسنس کی سہولت حاصل ہے اور آپ اپنی ورڈ پریس سائیٹ یا ایک سے زائد ویب سائیٹس پر گوگل ایڈسنس کو شامل کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ تو ورڈپریس پر کوئی نہ کوئی مشکل ایسی پیش آتی ہے کہ ایڈسنس سرے سے دکھائی نہیں دیتا۔ نہ سرورق پر نہ pages پر اور نہ posts پر۔<br />
گو کہ اس کی بہت ساری وجوہات ممکن ہو سکتی ہیں جنہیں گوگل سرچنگ کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ورڈپریس ویب سائیٹ کے حامل افراد سب سے پہلے یہ ٹوٹکا آزما کر دیکھیں ، بہت ممکن ہے کہ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے۔<br />
<br />
اپنی سائیٹ کے ایڈمن سیکشن میں جائیں۔<br />
Settings > General<br />
پھر وہاں پر ۔۔۔<br />
<span dir="ltr">WordPress address (URL)</span> اور <span dir="ltr">Site address (URL)</span> کے خانوں میں <br />
<span dir="ltr">http://</span> کے بعد <span dir="ltr">www.</span> بھی ضرور شامل کر دیں۔ اس کے بعد سیٹنگ کو Save کر لیں۔<br />
آپ کی ورڈپریس سائیٹ پر ایڈسنس دکھائی دینے لگے گا۔<br />
<br />
</div><br />
<br />
</div></div></div><br />
<div> </div><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhxHGJQviY-hTzwF0o4q4IxNYjcg44AHqz7mMNQ5fpFJmySkP5OiNs19RAjC3sdTNEMLCwzJV6qcVnpJ1-hRg3n16CCf6Ikzu7BXWbyNZojk-hAbfRWZTJft7aSfZc7QD1O0ST5tPCF7oI/s1600/adsense_wp.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="275" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhxHGJQviY-hTzwF0o4q4IxNYjcg44AHqz7mMNQ5fpFJmySkP5OiNs19RAjC3sdTNEMLCwzJV6qcVnpJ1-hRg3n16CCf6Ikzu7BXWbyNZojk-hAbfRWZTJft7aSfZc7QD1O0ST5tPCF7oI/s1600/adsense_wp.gif" width="470" /></a></div>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-13859082417341569442011-07-15T18:52:00.016+05:302012-11-09T01:17:31.511+05:30windows urdu installer | ونڈوز اردو انسٹالرwindows urdu installer | ونڈوز اردو انسٹالر<br /><br />
<a name='more'></a><br /><br />
<div id="tamcontur"><div id="tamconten"><div id="tamcolen"><br /><br />
<div class="engtxt">Though Windows (XP/Vista/7) now offer us to add Urdu language and urdu phonetic keyboard in our system, but the installation procedure is so much bore for a novice that he/she may refuse to do it personally.<br /><br />
So after a long journey, our urdu loving community has recently developed a one-time installer which install<br /><br />
<ul><li>urdu language support</li>
<li>urdu phonetic keyboard</li>
<li>& urdu nastaleeq font</li>
</ul>in a single go.<br /><br />
<br /><br />
Many thanks to its creator <a href="http://www.mbilalm.com">M.Bilal</a><br /><br />
Before downloading this installer, do try to read his post on this topic for a better understanding.<br /><br />
<br /><br />
<a href="http://www.mbilalm.com/urdu-installer.php">Pak Urdu Installer</a> (Article in image-format)<br /><br />
<a href="http://www.mbilalm.com/blog/pak-urdu-installer/">Pak Urdu Installer</a> (Article in text-format)<br /><br />
<a href="http://www.mbilalm.com/blog/pak-urdu-installer-update-1/">Pak Urdu Installer</a> (UPDATE-1)<br /><br />
<br /><br />
<a href="http://www.mbilalm.com/download/pak-urdu-installer.php">Download Link - Pak Urdu Installer</a><br /><br />
</div><br /><br />
</div><div id="tamcolur"><br /><br />
<div class="urdtxt">اگر اپنے کمپیوٹر کو اردو نستعلیق تحریر پڑھنے کے قابل بنانا ہو تو <a href="http://www.taemeer.com/2011/01/urdu-fonts-catalogue.html">یہاں</a> سے اپنے من پسند اردو نستعلیق خطوط (fonts) ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیں۔<br /><br />
لیکن اگر آپ اپنے کمپیوٹر میں اردو ایڈیٹر بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں یعنی MS-Word ، نوٹ پیڈ (Notepad) اور دیگر اپلی کیشنز میں اردو رسم الخط استعمال کرنا چاہتے ہوں تو اس کے لیے آپ کو اپنے کمپیوٹر میں اردو زبان اور کی۔بورڈ انسٹال کرنا ہوگا۔<br /><br />
آج سے کچھ سال پہلے تک اردو زبان کی انسٹالیشن ذرا مشکل کام ہی مانا جاتا رہا ہے کیونکہ انسٹالیشن کا طریقہ کار پیچیدہ ہونے کے ساتھ ونڈوز کی سی۔ڈی بھی مانگتا ہے۔<br /><br />
<br /><br />
لیکن اب آپ انٹرنیٹ کی اردو کمیونیٹی اور بطور خاص <a href="http://www.mbilalm.com/">ایم۔بلال</a> صاحب کو دعائیں دیجئے کہ انہوں نے اس کا نہایت آسان حل ڈھونڈ نکالا ہے۔<br /><br />
اب آپ صرف ایک کلک میں ایک ساتھ تین کام انجام دے سکتے ہیں۔ "پاک اردو انسٹالر" ڈاؤن لوڈ کیجئے اور بس اس کو ڈبل کلک کر دیں۔ اس کے ذریعے ۔۔۔<br /><br />
<ul><li>اردو زبان کی سپورٹ (support)</li>
<li>اردو فونیٹک (phonetic) کی۔بورڈ</li>
<li>اردو نستعلیق خط (font)</li>
</ul>سب کے سب آپ کے کمپیوٹر میں انسٹال ہو جائیں گے۔<br /><br />
<br /><br />
پاک اردو انسٹالر ڈاؤن لوڈ کرنے سے قبل تھوڑا سا وقت نکال کر مندرجہ ذیل تحاریر بھی ضرور پڑھ لیں :<br /><br />
<br /><br />
<a href="http://www.mbilalm.com/blog/pak-urdu-installer/">پاک اردو انسٹالر</a><br /><br />
<a href="http://www.mbilalm.com/blog/pak-urdu-installer-update-1/">پاک اردو انسٹالر - نظرثانی:1</a><br /><br />
<br /><br />
<a href="http://www.mbilalm.com/download/pak-urdu-installer.php">پاک اردو انسٹالر ڈاؤن لوڈ کریں</a><br /><br />
</div><br /><br />
</div></div></div>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-67145191680131289672011-06-18T12:56:00.013+05:302018-02-28T13:21:36.100+05:30Wordpress - php - alternate row color | دو رنگی قطاریںWordpress - php - alternate row color | دو رنگی قطاریں<br />
<a name='more'></a><br />
<div id="tamcontur"><div id="tamconten"><div id="tamcolen"><br />
<div class="engtxt">In Archive or Category template file of Wordpress site I want to show the posts links thru a table of odd-color rows. i.e each alternate row should be of different background color.<br />
See the side view for an example.<br />
This can be acheived thru a simple line of code as below :<br />
<blockquote>< script class="brush:php" type="syntaxhighlighter"><br />
<![ CDATA[
<?php echo $count % 2 ? ' class="odd"' : ''; ?><br />
.....<br />
]]><br />
< /script></blockquote>every odd row will be given a css-class named as "odd"<br />
<blockquote>< script class="brush:css" type="syntaxhighlighter"><br />
<![ CDATA[
.odd { background-color:#0000FF; }
.....
]] ><br />
< /script></blockquote>Change the color of your choice.<br />
<br />
for example :<br />
In category.php file , you can put the code as like this...<br />
<blockquote>< script class="brush:php" type="syntaxhighlighter"><br />
<! [ CDATA[
<table><tbody><br />
< ?php while (have_posts()) : the_post(); ++$count; ? ><br />
<br />
<tr< ?php echo $count % 2 ? ' class="odd"' : ''; ? >><br />
<td><br />
<a href="<?php the_permalink() ?>" rel="bookmark"><?php the_title(); ?></a><br />
</td><br />
</tr><br />
< ?php endwhile; ?><br />
</tbody></table>]] ><br />
< /script></blockquote></div><br />
</div><div id="tamcolur"><br />
<div class="urdtxt"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg3n0J0gJKtux3aup5nq00H2x_KVp1FwAQyBzKiPdqkyRTzZ9g2TK1RMJQIuwCK_e3E67w8TontZxxzeqqCs1DibEJA-ZvRw7g3rOM9OJgyMaJWHI0PRjXLZusmX-LjmIvSGypQ0p2O90U/s1600/php_odd_rows_color.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="132" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg3n0J0gJKtux3aup5nq00H2x_KVp1FwAQyBzKiPdqkyRTzZ9g2TK1RMJQIuwCK_e3E67w8TontZxxzeqqCs1DibEJA-ZvRw7g3rOM9OJgyMaJWHI0PRjXLZusmX-LjmIvSGypQ0p2O90U/s400/php_odd_rows_color.gif" width="325" /></a></div>ورڈ پریس سائیٹ میں اگر کسی زمرے کے تمام مراسلات کو جدول کی شکل میں پیش کرنا ہو تو category.php فائل میں ذرا سی تبدیلی کرنا پڑتی ہے۔<br />
جدول شامل کرتے ہوئے ہر طاق قطار (odd row) کے لیے ایک علیحدہ سی۔ایس۔ایس کلاس خاص کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے ایک چھوٹا سا کوڈ (snippet) کافی ہوتا ہے۔<br />
تفصیل کے لیے بازو کی انگریزی تحریر ملاحظہ فرمائیں۔</div><br />
</div></div></div>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-69473625747632369362011-06-02T19:42:00.008+05:302017-12-18T13:41:30.963+05:30Blogger-Share-Buttons | بلاگر کے شئر بٹنBlogger-Share-Buttons | بلاگر کے شئر بٹن<br />
<a name='more'></a><br />
<div id="tamcontur"><div id="tamconten"><div id="tamcolen"><br />
<div class="engtxt">Blogger has offered new share buttons for all blogspot blogs in June-2010. Check this : <a href="http://buzz.blogger.com/2010/06/new-share-buttons.html">New Share Buttons</a><br />
<br />
for the last few months it has noticed that the buttons have been disappeared. Actually this is due to the new css-class of share-button-links.<br />
previously the class was :<br />
<pre class="brush:css">a class='share-button sb-email' .......
</pre><br />
but now it has changed to :<br />
<pre class="brush:css">a class='goog-inline-block share-button sb-email' .......
</pre><br />
so, check your HTML file and replace accordingly.<br />
open Design > Edit HTML, check Expand Widget Templates<br />
Search these lines :<br />
<pre class="brush:css">a class='share-button sb-email' .......
a class='share-button sb-blog' .........
a class='share-button sb-twitter' ........
a class='share-button sb-facebook' .............
a class='share-button sb-buzz' ............
</pre><br />
Replace these 5 lines with :<br />
<pre class="brush:css">a class='goog-inline-block share-button sb-email' .......
a class='goog-inline-block share-button sb-blog' .........
a class='goog-inline-block share-button sb-twitter' ........
a class='goog-inline-block share-button sb-facebook' .............
a class='goog-inline-block share-button sb-buzz' ............
</pre><br />
You are done.<br />
The share buttons will now be showing under your posts.<br />
</div><br />
</div><div id="tamcolur"><br />
<div class="urdtxt"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj5-1Pytk3dGWHHqkyPdroQsU0ZRNf5qbIUB0bvcmvvIxHjp_fkaSV1fpW7Dg8dIhYZj6WA3A-vxIYtPwZjpAk-RB8EqL2hh-1n0HvYt48pax0I0jl2p_5b_jTC8LHHK3JyltEa0g7Q_vY/s1600/share_buttons.gif" imageanchor="1" style="margin-left:1em; margin-right:1em"><img border="0" height="75" width="125" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj5-1Pytk3dGWHHqkyPdroQsU0ZRNf5qbIUB0bvcmvvIxHjp_fkaSV1fpW7Dg8dIhYZj6WA3A-vxIYtPwZjpAk-RB8EqL2hh-1n0HvYt48pax0I0jl2p_5b_jTC8LHHK3JyltEa0g7Q_vY/s400/share_buttons.gif" /></a></div>بلاگر (بلاگ اسپاٹ بلاگز) نے جون 2010ء میں ہر تحریر کے اختتام پر شئر بٹنوں کی سہولت فراہم کی تھی۔<br />
کچھ عرصہ بعد یہ بٹن اچانک نظر آنا بند ہو گئے۔ گوگل تحقیق پر علم ہوا کہ ان بٹنوں کی سی۔ایس۔ایس کلاس تبدیل ہو گئی ہے۔<br />
لہذا ان بٹنوں کو اپنے بلاگ پر دوبارہ ڈسپلے کرنا ہو تو نئی سی۔ایس۔ایس کلاس کو اپلائی کر لیں۔ جس کی تفصیل بازو انگریزی میں موجود ہے۔<br />
</div><br />
<br />
</div></div></div>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-79118517995565293202011-01-26T05:57:00.019+05:302011-09-16T20:46:19.450+05:30urdu fonts catalogue - اردو فانٹس کیٹلاگurdu fonts catalogue - اردو فانٹس کیٹلاگ<br />
<a name='more'></a><br />
<div id="tamcontur"><div id="tamconten"><div id="tamcolen"><br />
<div class="engtxt">UrduLog Font Showcase is a font library which helps the user's system read and write Urdu scripts in variety of fonts including Naskh, Nastaleeq and other fancy calligraphic flavors without much trouble. A user may find here any urdu font for free downloading.<br />
There are 3 websites to offer this service :<br />
<br />
<a href="http://font.urdulog.com/">UrduLog Font Showcase</a><br />
<a href="http://font.urduweb.org/">UrduWeb Font Server</a><br />
<a href="http://font.alqlm.org/">Jahan-e-Qalam Font Server</a><br />
</div><br />
</div><div id="tamcolur"><br />
<div class="urdtxt">بالآخر اردو فانٹس لائیبریری کا اجرا ہو گیا ہے۔ ایک اہم ترین کاز کی تکمیل پر اس شعبہ کے تمام ماہرین تعریف و مبارکباد کے مستحق ہیں۔<br />
اب ظاہر ہے کہ انٹرنیٹ کے اردو صارف کو ادھر ادھر کی سائیٹس سے اپنی پسند کے اردو فانٹ کو حاصل کرنے دقت اٹھانی نہیں پڑے گی بلکہ تمام خط (font) اسے ایک ہی جگہ سے دستیاب ہو جائیں گے۔<br />
<br />
اردو فانٹس کیٹلاگ کے اجرا پر القلم آرگنائزیشن کے بانی محترم شاکر القادری صاحب نے اردو محفل فورم پر اس لائیبریری سے متعلق ایک تعارفی تحریر یوں پیش کی ہے ، ملاحظہ فرمائیں :<br />
<a href="http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?32280">اردو فانٹس کیٹلاگ کا اجراء</a><br />
<br />
<a href="http://www.facebook.com/mohibalvi">محب علوی صاحب</a> نے بھی اپنے بلاگ پر ڈسمبر-2010ء میں ایک خوبصورت اور دلچسپ تعارف کرایا تھا۔ اتفاق سے ان کے بلاگ کا سرور کافی عرصے سے ڈاؤن ہے لیکن ہم نے ان کی تحریر اپنے پاس محفوظ رکھی تھی ، ان کے شکریے کے ساتھ یہاں بھی پیش خدمت ہے۔<br />
<br />
***<br />
<span style="font-size: 22px;">جمیل خط نما ۔۔۔۔۔۔ فانٹ اطلاقیہ</span><br />
<br />
اردو لاگ فانٹ شو کیس ایک خوبصورت سائٹ بلکہ زیادہ بہتر الفاظ میں ایک فانٹ ایپلیکیشن جو مائیکروسافٹ ایکسل کی طرح گروپنگ ، سارٹنگ اور فلٹرنگ کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ اس وقت اس میں 400 سے زائد فانٹس شامل ہیں جن میں سے سوائے پی ڈی ایم ایس(PDMS) فانٹس جن کی تعداد تقریبا تیرہ ہے ، تمام فانٹس ڈاؤن لوڈ کیے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔ بالکل مفت۔ یہ ویب ایپلیکیشن 25 نومبر کو ریلیز ہوئی اور ایک ہی ماہ میں فانٹ ڈاؤن لوڈ کرنے والوں کی تعدادکم از کم 555 رہی اور فانٹ ڈاؤن لوڈ کی تعداد 10,000 سے زائد رہی جو کہ اب تک کی کسی بھی اردو ایپلیکیشن کے لیے ایک سنگ میل ہے۔ <br />
<br />
جمیل خط نما ایپلیکیشن بنیادی طور پر ایک فانٹ کیٹلاگنگ سروس (Font Cataloging Service) ہے جو اوپن سورس ہے اور اردو فانٹس کے لیے خاص نرم گوشہ رکھتی ہے۔ اس سروس میں اگر کسی فانٹ کا کوڈ میسر ہے تو وہ بھی فانٹ کے ساتھ ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ ایپلیکیشن میں درمیانی حصہ فانٹ کی بلحاظ نام،خاندان ،سٹائل اور حجم کے گروہ بندی اور ترتیب کے لیے مختص ہے۔ فانٹ کا درمیانی حصہ جو کہ ایک لسٹنگ گرڈ (Listing grid ) ہے وہاں ڈبل کلک ، رائٹ کلک ، ٹول ٹپ اور خفیہ مینو ٹول ٹپ نے اس اطلاقیہ کو دلچسپ اور استعمال میں حد درجہ سہل بنا دیا ہے۔ دائیں جانب ایک نمائشی خانہ ہے جو ڈویلپر حضرات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے جہاں سے سی ایس ایس حاصل کی جا سکتی ہے۔ نچلے خانے میں فانٹ کا حقیقی عکس اور متعلقہ معلومات دستیاب ہیں۔ فی الوقت یہ فانٹ اطلاقیہ تین مختلف سائٹس پر ہوسٹ ہو رہا ہے ۔<br />
<br />
<a href="http://font.urdulog.com/">اردو لاگ فانٹ شو کیس</a><br />
<a href="http://font.urduweb.org/">اردو ویب فانٹ سرور</a><br />
<a href="http://font.alqlm.org/">جہان قلم</a><br />
<br />
ایک ہمہ جہت سکرین شاٹ پیش خدمت ہے :<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgy41UGpUQnVOaSWDqgOkcFBCTM-p1LeOuReQkPaq8ykqmc27JupkkCaTGHXDHnhnN7vwfw4zKSViW92M9Bnf-aC-my9vMQvQT-y2apU4wy1w4b01COyKGbKQzGpKMeP226DJ-viYDZFVM/s1600/uwfs-screenshot.png" imageanchor="1" style="margin-left:1em; margin-right:1em"><img border="0" height="194" width="320" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgy41UGpUQnVOaSWDqgOkcFBCTM-p1LeOuReQkPaq8ykqmc27JupkkCaTGHXDHnhnN7vwfw4zKSViW92M9Bnf-aC-my9vMQvQT-y2apU4wy1w4b01COyKGbKQzGpKMeP226DJ-viYDZFVM/s320/uwfs-screenshot.png" /></a></div><br />
مزید تفصیل اور ایپلیکیشن کے فیچر جاننے کے لیے اوپر دیے گئے کسی بھی لنک پر تشریف لے جائیں اور اس باکمال سروس سے لطف اندوز ہو۔<br />
<br />
اس کے علاوہ اگر اسے اپنے بلاگ یا ویب سائٹ پر دکھانا چاہیں تو جمیل خظ نما کا بینر کوڈ بھی دستیاب ہے ۔ صارف کتابچہ (User Manual) میں اطلاقیہ کے استعمال کے بارے میں معلومات کے علاوہ اردو سیٹ اپ اور کی بورڈ لے آؤٹ کے مفید روابط بھی شامل ہیں۔ <br />
اگر کوئی بلاگر یا ویب ماسٹر کسی مخصوص فانٹ کا براہ راست ڈاؤن لوڈ لنک اپنی سائٹ پر دینا چاہتا ہے تو اس کی سہولت بھی جمیل خط نما اطلاقیہ میں موجود ہے<br />
***<br />
</div><br />
<br />
</div></div></div>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-1425052528706356422.post-16054195584214210142009-06-22T11:09:00.002+05:302017-12-18T13:42:19.083+05:30Welcome | خوش آمدیدWelcome | خوش آمدید<br />
<a name='more'></a><br />
<div id="tamcontur"><div id="tamconten"><div id="tamcolen"><br />
<div class="engtxt"><span>Welcome</span><br />
<span>to the blog of ...</span><br />
<span>Taemeer [dot] com</span><br />
Please contact : <a href="mailto:taemeer@gmail.com">WebMaster</a><br />
</div><br />
</div><div id="tamcolur"><br />
<div class="urdtxt"><span>تعمیر [ڈاٹ] کوم</span><br />
<span>کے بلاگ پر ۔۔۔</span><br />
<span>خوش آمدید</span><br />
ربط فرمائیں : <a href="mailto:taemeer@gmail.com">ویب ماسٹر</a><br />
</div><br />
<br />
</div></div></div>Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.com0